غزل سرا
ہماری کتابیں
شعراء
رابطہ
اکاؤنٹ
رجسٹر
لاگ اِن
غزل سرا کے بارے میں
تلاش
مرزا غالب
تکلف بر طرف ، نظارگی میں بھی سہی ، لیکن
وہ دیکھا جائے ، کب یہ ظلم دیکھا جائے ہے مجھ سے
وفائے دلبراں ہے اتفاقی ورنہ اے ہمدم
اثر فریادِ دل ہائے حزیں کا کس نے دیکھا ہے
دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آ جائے ہے
میں اسے دیکھوں، بھلا کب مجھ سے دیکھا جائے ہے
دشمنی نے میری ، کھویا غیر کو
کس قدر دشمن ہے ، دیکھا چاہیے
منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید
ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے
چاہتے ہیں خوبروؤں کو اسدؔ
آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے
بہادر شاہ ظفر
ہے بہت دشوار مرنا یہ سنا کرتے تھے ہم
پر جدائی میں تری ہم نے جو دیکھا سہل ہے
داغ دہلوی
تجھے دیکھ کر وہ دوئی اٹھ گئی ہے
کہ اپنا بھی ثانی نہ دیکھا نہ دیکھا
وہ تھا جلوہ آرا مگر تو نے موسیٰ
نہ دیکھا نہ دیکھا نہ دیکھا نہ دیکھا
مصحفی غلام ہمدانی
تیغِ ابرو تیرِ مژگاں سب رکھے ہیں سان پر
ان دنوں اس کی طرف کب ہم سے دیکھا جائے ہے
روز کے وعدے روز بہانے روز یہ کہنا آؤں گا کل
فائدہ کیا ان باتوں کا ہے ہم نے میاں بس تم کو دیکھا
جاتے جاتے راہ میں اس نے منہ سے اٹھایا جوں ہی پردا
راہ کے جانے والوں نے بھی منہ اس کا پھر پھر کے دیکھا
مومن خان مومن
دیدۂ حیراں نے تماشا کیا
دیر تلک وہ مجھے دیکھا کیا
یگانہ چنگیزی
کس دل سے ترک لذت دنیا کرے کوئی
وہ خوابِ دل فریب کہ دیکھا کرے کوئی
حسن یگانہؔ آپ ہی اپنا حجاب ہے
حسن حجاب دور سے دیکھا کرے کوئی
دیوانہ وار دوڑ کے کوئی لپٹ نہ جائے
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دیکھا نہ کیجیے
باقی صدیقی
منزلیں راستہ بن جاتی ہیں
ڈھونڈنے والوں نے دیکھا ہو گا
ابھی کر دیں تجھے دنیا کے سپرد
ابھی جی بھر کے تو دیکھا بھی نہیں
ہم کہ شعلہ بھی ہیں اور شبنم بھی
تو نے کس رنگ میں دیکھا ہم کو
اب ہحے وہ زخم نظر کا عالم
تیری جانب بھی نہ دیکھا جائے
خواجہ میر درد
تجھی کو جو یاں جلوہ فرما نہ دیکھا
برابر ہے دنیا کو دیکھا نہ دیکھا
تغافل نے تیرے یہ کچھ دن دکھائے
ادھر تو نے لیکن نہ دیکھا نہ دیکھا
شکیب جلالی
کوئی بھولا ہوا چہرہ نظر آئے شاید
آئینہ غور سے تو نے کبھی دیکھا ہی نہیں
مجید امجد
ہے جو یہ سر پہ گیان کی گٹھڑی
کھول کر بھی اسے کبھی دیکھا؟
الطاف حسین حالی
حشر تک یاں دل شکیبا چاہیے
کب ملیں دلبر سے دیکھا چاہیے
ہے تجلی بھی نقاب روئے یار
اس کو کن آنکھوں سے دیکھا چاہیے
دوستوں کی بھی نہ ہو پروا جسے
بے نیازی اس کی دیکھا چاہیے
رئیس فروغؔ
بوجھل آنکھیں کب تک آخر نیند کے وار بچائیں گی
پھر وہی سب کچھ دیکھنا ہو گا صبح سے جو کچھ دیکھا ہے
اختر شیرانی
وہ کبھی مل جائیں تو کیا کیجیے
رات دن صورت کو دیکھا کیجیے
اسرار الحق مجاز
یا تو کسی کو جرأت دیدار ہی نہ ہو
یا پھر مری نگاہ سے دیکھا کرے کوئی
میری نظروں میں حشر بھی کیا ہے
میں نے ان کا جلال دیکھا ہے
جلوۂ طور خواب موسیٰ ہے
کس نے دیکھا ہے کس کو دیکھا ہے
کیوں جوانی کی مجھے یاد آئی
میں نے اک خواب سا دیکھا کیا تھا
بشیر بدر
دل محبت دین دنیا شاعری
ہر دریچے سے تجھے دیکھا کریں
زہرا نگاہ
ہر کونے میں اپنے آپ سے باتیں کیں
ہر پہچل پر آئینے میں دیکھا تھا