25 مارچ 1912 ۔ 06 مئی 1972

سراج الدین ظفر
سراج الدین ظفر اردو زبان کے پاکستان سے تعلق رکھنے و الے نامور شاعر اور افسانہ نگار تھے۔ جنہوں نے اردو شاعری میں اپنا بھرپور تاثر قائم کیا۔
مزید

11 مارچ 1939 ۔ 15 اپریل 2004

عرفان صدیقی
عرفان صدیقی نئے دور کے چند بہترین شعراء میں سے ایک ہیں اور اردو غزل ان کی پہچان بنی۔
مزید

29 جون 1914 ۔ 11 مئی 1974

مجید امجد
اردو نظم کی آبرو مجید امجد ایک رجحان ساز شاعر ثابت ہوئے اور انہوں نے آزاد نظم کو ایک سمت دی جس کی وجہ سے اس صنف کا سفر کامیاب رہا۔
مزید

10 اپریل 1772 ۔ 16 اگست 1838

امام بخش ناسخ
شیخ امام بخش ناسخ کا شمار اردو کے اساتذہ میں ہوتا ہے۔ ناسخ جب فیض آباد سے لکھنؤ آئے تو ایک رئیس میر کاظم علی سے منسلک ہو گئے جنھوں نے ناسخ کو اپنا بیٹا بنا لیا۔ ان کے انتقال پر اچھی خاصی دولت ناسخ کے ہاتھ آئی۔ انھوں نے لکھنؤ میں بود و باش اختیار کر لی اور فراغت سے بسر کی۔
مزید

10 اپریل 1910 ۔ 10 مارچ 1981

عبدالحمید عدم
عبد الحمید عدم عبد الحمید عدم پاکستان کے نامور شاعر ہیں جو رومانی غزلوں کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔
مزید

14 مئی 1800 ۔ 14 مئی 1851

مومن خان مومن
مومن خان مومن (پیدائش:1800ء— وفات: 14 مئی 1851ء) دبستان دہلی سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے مشہور شاعر اور اسد اللہ خاں غالب کے ہم عصر تھے۔
مزید

فلس ماہی کے گل شمع شبستاں ہوں گے

مومن خان مومن


دفن جب خاک میں ہم سوختہ ساماں ہوں گے
فلس ماہی کے گل شمع شبستاں ہوں گے
ناوک انداز جدھر دیدۂِ جاناں ہوں گے
نیم بسمل کئی ہوں گے کئی بے جاں ہوں گے
تابِ نظارہ نہیں آئنہ کیا دیکھنے دوں
اور بن جائیں گے تصویر جو حیراں ہوں گے
تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانا کر لے
ہم تو کل خوابِ عدم میں شبِ ہجراں ہوں گے
ناصحا دل میں تو اتنا تو سمجھ اپنے کہ ہم
لاکھ ناداں ہوئے کیا تجھ سے بھی ناداں ہوں گے
کر کے زخمی مجھے نادم ہوں یہ ممکن ہی نہیں
گر وہ ہوں گے بھی تو بے وقت پشیماں ہوں گے
ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس
ایک وہ ہیں کہ جنہیں چاہ کے ارماں ہوں گے
ہم نکالیں گے سن اے موجِ ہوا بل تیرا
اس کی زلفوں کے اگر بال پریشاں ہوں گے
صبر یا رب مری وحشت کا پڑے گا کہ نہیں
چارہ فرما بھی کبھی قیدی زنداں ہوں گے
منت حضرت عیسیٰ نہ اٹھائیں گے کبھی
زندگی کے لیے شرمندۂِ احساں ہوں گے
تیرے دل تفتہ کی تربت پہ عدو جھوٹا ہے
گل نہ ہوں گے شرر آتش سوزاں ہوں گے
غور سے دیکھتے ہیں طوف کو آہوئے حرم
کیا کہیں اس کے سگ کوچہ کے قرباں ہوں گے
داغِ دل نکلیں گے تربت سے مری جوں لالہ
یہ وہ اخگر نہیں جو خاک میں پنہاں ہوں گے
چاک پردے سے یہ غمزے ہیں تو اے پردہ نشیں
ایک میں کیا کہ سبھی چاکِ گریباں ہوں گے
پھر بہار آئی وہی دشت نوردی ہو گی
پھر وہی پاؤں وہی خارِ مغیلاں ہوں گے
سنگ اور ہاتھ وہی وہ ہی سر و داغ جنون
وہ ہی ہم ہوں گے وہی دشت و بیاباں ہوں گے
عمر ساری تو کٹی عشقِ بتاں میں مومنؔ
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع