29 جون 1914 ۔ 11 مئی 1974

مجید امجد
اردو نظم کی آبرو مجید امجد ایک رجحان ساز شاعر ثابت ہوئے اور انہوں نے آزاد نظم کو ایک سمت دی جس کی وجہ سے اس صنف کا سفر کامیاب رہا۔
مزید

25 مئی 1831 ۔ 17 مارچ 1905

داغ دہلوی
داغ دہلوی اردو غزل کے چند بڑے شعرا میں سے ایک ہیں۔ ان کے شاگردوں کا سلسلہ ہندوستان میں پھیلا ہوا تھا۔ اقبال، جگر مراد آبادی، سیماب اکبر آبادی اور احسن مارہروی جیسے معروف شاعر وں کو ان کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا۔ ان کے جانشین نوح ناروی بھی ایک معروف شاعر ہیں۔
مزید

16 دسمبر 1752 ۔ 19 مئی 1817

انشاء اللہ خان انشا
سید انشاء اللہ خان انشا کی ذہانت اور جدت پسندی انہیں اپنے ہم عصروں میں منفرد نہیں بلکہ تاریخ ادب میں بھی ممتاز مقام دلاتی ہے۔ غزل، ریختی، قصیدہ اور بے نقط مثنوی اور اردو میں بے نقط دیوان رانی کیتکی کی کہانی جس میں عربی فارسی کا ایک لفظ نہ آنے دیا۔
مزید

15 مئی 1833 ۔ 15 مئی 1903

میر مہدی مجروح
میر مہدی مجروح کے نام سےان کے ہمعصر اور ہم رتبہ شاعروں کے مقابلہ میں ،ہماری زیادہ واقفیت خطوط غالب کی مرہون منت ہے۔مجروح غالب کے ان شاگردوں میں تھے جنہیں وہ بیحد عزیز رکھتے تھے اور انھیں اپنا "فرزند" کہتے تھے۔شاعری میں ہی نہیں ان کی نجی زندگی میں بھی غالب نے مجروح کی ہر طرح مدد اور رہنمائی کی۔شاعری
مزید

27 دسمبر 1809 ۔ 11 جولائی 1869

مصطفٰی خان شیفتہ
نواب مصطفٰی خان شیفتہ جہانگیر آباد کے جاگیردار، اردو فارسی کے باذوق شاعر اور نقاد تھے۔
مزید

14 مئی 1800 ۔ 14 مئی 1851

مومن خان مومن
مومن خان مومن (پیدائش:1800ء— وفات: 14 مئی 1851ء) دبستان دہلی سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے مشہور شاعر اور اسد اللہ خاں غالب کے ہم عصر تھے۔
مزید

کب پارہ پارہ پیرہنِ چارہ جو نہیں

مصطفٰی خان شیفتہ


کب ہاتھ کو خیالِ جزائے رفو نہیں
کب پارہ پارہ پیرہنِ چارہ جو نہیں
گلگشت باغ کس چمن آرا نے کی کہ آج
موجِ بہار مدعی رنگ و بو نہیں
واں بار ہو گیا ہے نزاکت سے بار بھی
یاں ضعف سے دماغ و دلِ آرزو نہیں
کس نے سنا دیا دلِ حیرت زدہ کا حال
یہ کیا ہوا کہ آئنہ اب روبرو نہیں
تغئیرِ رنگ کہتی ہے وصلِ عدو کا حال
یعنی نقابِ رخ پہ کبھو ہے ، کبھو نہیں
گستاخِ شکوہ کیا ہوں کہ اندازِ عرض پر
کہتے ہیں اختلاط کی بندے کی خو نہیں
کیا جانے دردِ زخم کو گو ہو شہیدِ ناز
جو نیم کشتِ خنجرِ رشکِ عدو نہیں
ابرِ سرشک و گلشنِ داغ و نسیمِ آہ
سامانِ عیش سب ہے پر افسوس تو نہیں
بد خوئیوں سے یار کی کیا خوش ہوں شیفتہ
ہر ایک کو جو حوصلۂِ آرزو نہیں