خلش دل میں جہاں پر تھی وہیں معلوم ہوتی ہے

بہزاد لکھنوی


محبت مستقل کیف آفریں معلوم ہوتی ہے
خلش دل میں جہاں پر تھی وہیں معلوم ہوتی ہے
ترے جلووں سے ٹکرا کر نہیں معلوم ہوتی ہے
نظر بھی ایک موج تہ نشیں معلوم ہوتی ہے
نقوشِ پا کے صدقے بندگی عشق کے قرباں
مجھے ہر سمت اپنی ہی جبیں معلوم ہوتی ہے
مری رگ رگ میں یوں تو دوڑتی ہے عشق کی بجلی
کہیں ظاہر نہیں ہوتی کہیں معلوم ہوتی ہے
یہ اعجاز نظر کب ہے یہ کب ہے حسن کی کاوش
حسیں جو چیز ہوتی ہے حسیں معلوم ہوتی ہے
امیدیں توڑ دے میرے دلِ مضطر خدا حافظ
زبان حسن پر اب تک نہیں معلوم ہوتی ہے
اسے کیوں مے کدہ کہتا ہے بتلا دے مرے ساقی
یہاں کی سر زمیں خلدِ بریں معلوم ہوتی ہے
ارے اے چارہ گر ہاں ہاں خلش تو جس کو کہتا ہے
یہ شے دل میں نہیں دل کے قریں معلوم ہوتی ہے
کسی کے پائے نازک پر جھکی ہے اور نہیں اٹھتی
مجھے بہزادؔ یہ اپنی جبیں معلوم ہوتی ہے
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
ہزج مثمن سالم
فہرست